گھبراہٹ اور بے چینی کی وجوہات اور علاج

گھبراہٹ اور بےچینی (Panic Disorder) ایساعارضہ  ہے جس میں مریض پر اچانک  سےدم گھٹنے اوراضطراب کی سی کیفیت  طاری ہو جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے،  دورانِ خون بڑھ جاتا ہےاورمریض  ایک کرب کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا  ہے جیسے اس کا جسم  سن ہو گیا ہے، دل بند ہو گیا ہےاور یا پھر وہ اپنے حواس کھو رہا ہے۔ یہ علامات بہت شدید ہوتی ہیں اور ان کا دورانیہ چند  لمحوں سے لے کر کئی منٹ تک کا ہو سکتا ہے۔ اس عجیب بے قراری اور گھبراہٹ کی حالت میں اسے  اپنی موت سامنے نظر آتی ہے۔

کچھ لوگوں میں گھبراہٹ اور بےچینی کے دورے کی یہ کیفیت کسی خاص کیفیت یا محلِ وقوع کی وجہ سے ہوتی ہے۔ خاص کر ہجوم والی جگہوں پر، لفٹ میں، زلزلے کے دوران، کسی بلندی پر، دھماکے کی آواز سے یا بےعزتی کے خدشات سے انہیں انجانا خوف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسامسئلہ ہو جائے گا جس سے بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا۔

عام طور پر اس مرض  میں مبتلا لوگ میڈیکل یا کارڈیک ایمرجینسی کا رخ کرتے ہیں۔ متعدد ٹیسٹ کرواتے ہیں۔حالانکہ  panic disorder  کوئی جان لیوا بیماری نہیں، یہ ایک ذہنی عارضہ ہے جس کا تعلق انسان کے دفاعی خطرے کے نطام میں خرابی کی وجہ سے ہے۔ایک تحقیق کے مطابق اس بیماری میں مبتلا افراد کی شرح تین سے چار فیصد تک ہے۔

علامات: گھبراہٹ اور بےچینی کے دورے کے دوران مریض میں مندرجہ ذیل علامات پائی جاتی ہیں:

    1۔ دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی ہے۔
    2۔ ٹھنڈے پسینے آتے ہیں۔
    3۔ عضلات میں کھنچاو آ جاتا ہے۔
    4۔ شدید گھٹن کے ساتھ سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی  ہے۔
    5۔ منہ خشک ہو جاتا ہے۔
    6۔ سر میں چکر آتے ہیں۔
    7۔ ہاتھ پاوں ٹھنڈے پڑ جا تے ہیں اور ان میں سوئیاں چبھنے کا احساس ہوتا ہے۔
    8۔ زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔
    9۔ اوربدن میں طاقت  ختم ہو جاتی ہے۔

وجوہات: گھبراہٹ اور بے چینی کی کیفیت مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے ہو سکتی ہے:

    1. اللہ نے انسانی کے دفاعی نظام میں قدرتی طور پر ایک built-in الارم سسٹم رکھا ہے جو مختلف خطرات کےموقعوں پر انسان کو اپنے تحفظ کے لئے خبر دار کرتا ہےجس کی وجہ سے انسان شعوری طورپر محتاط رویے اپناتا ہے مثلاً جنگل میں کسی درندے کی موجودگی کا احساس، ڈرائیونگ کے دوران حادثوں سےمحتاط رہ کر گاڑی چلانا  وغیرہ۔ بعض حالتوں میں اس خطرے کےاحساس دلانے والا نظام کے کیمیائی مادوں میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ الارم سسٹم زیادہ حساس ہو جاتا ہے اور بغیر کسی حقیقی خطرے کے بھی کام کرنا شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے مریض کا اپنے اوپر کنٹرول  نہیں رہتا اور دورے کی کیفیت حاوی ہو جاتی ہے۔
    2. کسی فوبیا کی وجہ سے، مثلاً زیادہ رش والی جگہوں پر، لوگوں کا سامنا کرنے سے، بلند جھولوںوغیرہ سے۔
    3. کچھ لوگوں میں موروثی طور پر دفاعی الارم کا یہ سسٹم کمزور ہوتا ہے۔
    4. بعض لوگوں کی زندگی کے بچپن اور لڑکپن  کے ادوار میں پیش آنے والے  تلخ واقعات یا حادثے  بھی اس  panic disorder کا باعث ہوتے ہیں۔
    5. کچھ افراد کی زندگیوں میں پائی جانی والی حد درجے کی پریشانیاں اور over stresses کی وجہ سے بھی دفاعی نظام کا یہ جزو زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔
    6. کسی جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے یا اس کے دوران اچانک پکڑے جانے کا خوف بھی اس کیفیت میں لے جاتا ہے۔
    7. کسی لمبی بیماری کے بعد۔

علاج: گھبراہٹ اور بےچینی کے دورے کی علامات واقعتاً اتنی شدید ہوتی ہیں کہ انسان سوچنے  لگتا ہےکہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے۔ کچھ لوگوں کو سر میں خون کی  انتہائی گردش  سے لگتا ہے کہ شریانیں پھٹ جائیں گی یا پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے گا۔لیکن ان شدید علامات کے باوجود حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ یہ مرض انسان کی زندگی کے لئے  اس قدر خطرناک اور جان لیوا نہیں ہے۔ اس سے فرار حاصل کرنے کی بجائے  بہادری سےاس کا سامنا کرنا چاہیئے۔اس کا علاج مندرجہ ذیل دوطریقوں پر مبنی ہے:

    ادویات کے زریعے: دفاعی نظام کے الارم والا میکینزم جوکہ کیمیکل کی بنیاد پر استوار ہے اس میں کیمیائی مادوں کے عدم توازن کو ختم کرنے کے لئےادویات دی جاتی ہیں۔ یہ ادویات اس نظام  کو بحال کرتی ہیں جس کے بعد وہ اپنے افعال درست طریقے پر سرانجام دینا شروع کر دیتا ہے۔ عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مریض ان ادویات کا عادی ہو جاتا ہے  لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ادویات کسی سائیڈ ایفیکٹ کے بغیر متا ثرہ فرد کی بحالی میں اہم کردار دا کرتی ہیں۔ اس میں چند ہفتوں سے لے کر چند ماہ کا دورانیہ لگ سکتا ہے۔

    سایئکو تھراپی کی مدد سے علاج: کونسلنگ کے زریعے کئے گئے علاج کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس  میں مریض کے  خیالات اور مجموعی رویوں  کو  درج ذیل خطوط پر بہتر کیا جاتا ہے:

    1۔ Cognitive Behavior Therapy کے زریعے مریض کے اندر پائے جانے والے راسخ خیالات کو تجرباتی اقدامات کی مدد سے درست کر کے اس بیماری کو شکست دی جاتی ہے۔مثال کے طور پر کسی مریض کو ورزش کروا کر اسے دل کی دھڑکن کی تیزی سے آگاہ کرنا تاکہ اسے سمجھ آجائے کہ ہر دفعہ دل کی تیز دھڑکن کسی دورے کا باعث نہیں ہوتی۔
    2۔ اسی طرح ہجوم کی وجہ سےپائے جانے والے خوف کی وجہ سے ایسا مریض فوبک ہو جاتا ہے۔ مختلف تجربات سے اس کے اس قسم کے خدشات کو دور کیا جاتا ہے۔
    3۔ De-breathing کی مشق کروئی جاتی ہے۔
    4۔ Relax رکھنے کی ورزشیں کروائی جاتی ہیں۔
    5۔ Moral Support اور مناسب حوصلہ افزائی سے ان علامات سے جلد چھٹکارا ملتا ہے۔
    6۔نشہ آور اشیاء مثلاً کیفین، منشیات اور انرجی ڈرنکس سے اجتناب کرایا جاتا ہے۔

جس انسان کے دل میں اللہ کا خوف موجود ہے اس کےدل میں کوئی دوسرا خوف جمع نہیں ہو سکتا۔  جب ایک بات طے ہے کہ جو اللہ نے لکھ رکھا ہے وہ ہو کر رہے گا تو پھرہمارے بے بنیاد وسوسوں  اور خدشات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی  ۔ متاثرہ انسان اپنی قوتِ ارادی اور مذکورہ علاج سے بخوبی اس مرض سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ مزید برآں اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر لمبے سجدوں سے دماغ  کے خلیات میں دورانِ خون کی فعال گردش سے اس کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہےاور لاحول ولاقوۃالاباللہ اور استغفار کے ورد سے بھی اس کیفیت  کےخاتمے میں مدد ملتی ہے۔

اگر آپ اکثر بے چینی اور گھبراہٹ کا شکار رہتے ہیں اور اس مسئلے سے نکلنا چاہتے ہیں تو ایک اچھے ماہر نفسیات سے گھر بیٹھے آن لائن رابطہ کر سکتے ہیں۔
رابطہ کرنے کے کے لئے یہاں کلک کریں۔ یا 03001003171 پر کال کریں۔