اگر کسی کو سانس لینے میں دشواری ہو، معدے یا جگر کا کوئی مرض ہو تو ہم فورا ًسے اس کا علاج کرتے ہیں اور اس مریض کو ہمت دلاتے ہیں مگر ذہنی بیماری میں ذہنی صحت کی اہمیت سے نابلد ہونے کے باعث ہم علاج شروع نہیں کرتے بلکہ اس شخص کو وہمی، ناتواں ، کمزور قوت ارادی کا مالک اور توجہ حاصل کرنے کا خواہاں سمجھتے ہیں اور اس کو خاموش رہنے کا کہتے ہیں۔ہم ایسی تفریق کیوں کرتے ہیں؟
ہم سبھی تقریبا ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں دماغی مرض کا شکار ہیں۔ چاہے ڈپریشن ہو ، اینزائیٹی ہو ،سٹریس ہو یا شیزوفرینیا بلکہ محتاط اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 35 فیصد افراد بے چینی اور افسردگی کا شکار ہیں۔یہ سب امراض دماغ کے ایک ہی حصے کو متاثر کرتے ہیں۔دماغ ہمارے جسم کا سب سے پیچیدہ جزوہے جس کو سمجھنا اور پھر اس کے مسائل کا حل تلاشنا مشکل ترین کام ہے۔گزشتہ صدیوں میں ذہنی مریضوں سے خوف کھایا جاتا تھا اور ان کو قید میں رکھا جاتا تھا۔21ویں صدی میں ٹیکنالوجی میں گراں قدر اضافے کے باعث ان امراض کا علاج بھی ممکن ہوا ہے مگر آج بھی پاکستان کے متاثرہ افراد میں سے محض 40 فیصد کسی سائیکائیٹرسٹ سے مشورہ کرتے ہیں یعنی 3 کڑوڑ آبادی خاموشی سے تکلیف جھیلتی ہے۔
اس کی وجہ ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض سے متعلق غلط رجحانات ہیں۔اس میں شک نہیں کہ آج کے دور میں ان خیالات میں بہت تبدیلی آچکی ہے مگر آج بھی دماغی امراض کو انسان کی بشری کمزوری یا خامی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، جبکہ یہ دیگر بیماریوں کی ہی طرح دماغ کی بیماری ہے جس کو سہنے والا بہادر اورزیادہ تر اکیلےہی لڑ رہا ہوتا ہے۔
اس منفی سوچ کے باعث متاثرہ فرد کوبیماری کے ساتھ ساتھ بہت سی سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے نوکری کا چلے جانا،رشتوں میں تنا ؤ اور دوستوں سے دوری وغیرہ۔ وہ دوسروں سے بات کرنے میں جھجھک محسوس کرتا ہے اور علاج کی ہمت نہیں کر پاتا۔اس کے ذہن میں ایک ہی فقرہ گردش کرتاہے کہ “لوگ کیا سوچیں گے”۔ان عوامل کی وجہ سے مرض دگنا ہوجاتا ہے۔اوریوں ایک قابلِ علاج مرض ناقابل علاج صورت اختیار کر جاتا ہے اور انتہائی حالات میں خودکشی تک کا سبب بن جاتا ہے۔
ذہنی بیماری کے شکار افراد کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی باتوں پہ توجہ نہ دیں کیونکہ ان کی باتیں محض ان کی سوچ کی ترجمانی کرتی ہیں، ان کا آپکی ذات سےکوئی تعلق نہیں لھٰذا کسی کی رائے کو اپنے اوپر اثرانداز نہ ہونے دیں۔آپ اپنی حیات کی قیمت اور مقصد پہچانیں اور اس کی خاطر اپنی بیش قیمت زندگی کو سنواریں۔مثبت سرگرمیاں اختیار کریں ،ذہن پہ دباؤ نہ ڈالیں ،علاج کو اولین ترجیح دیں اور پہلا قدم اٹھا کر ماہرین سے رابطہ کریں۔
گزرتے دنوں کے ساتھ ذہنی امراض کے شکار لوگوں میں غیر معمولی اضافے میں بہت بڑا کردار اس بیماری سے متعلق منفی سوچ اور رویوںکاہے ۔ایک صحت مند معاشرے کی تکمیل کیلیئے ہمیں ذہنی صحت سے متعلق اپنی معلومات کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے،تنقیدی لہجے سے دور رہنا چاہیے اورخوش اخلاقی کو اپنا شعار بنا نا چاہیے ، لوگوں سے گھل مل کر ان سے بات کرنی چاہیے اور ان کے مسائل پہ توجہ دے کر انہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔علاوہ ازیں متاثرہ افراد کو علاج کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
‘صحتیاب’ ان خاموش نفسیاتی مریضوں کی مدد کیلیے آن لائن علاج فرہم کرتا ہے۔ انتہائی پیشہ ورانہ ماہرین کے پینل کی مدد سے مریض گھر کی سی مکمل رازداری سے معالجین سے چیٹ یا ویڈیو کال کر سکتے ہیں۔ مزید بر آں بہترین علاج کے ساتھ ساتھ ‘ صحتیاب ‘ کے مجوزہ واجبات دیگر اداروں سے 30 سے 50 فیصدتک کم ہیں۔