عصرِ حاضر کےاستاد کو در پیش ذہنی دباؤکی وجوہات اور تجاویز

بلا شبہ استاد بچوں کے لئے ایک رول ماڈل کی مانند ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو انہیں قوم کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن قوم کے سنہرےمستقبل کے اس پیامبر کو عصرِ حاضر میں کئی طرح کے چیلنجز کاسامنا ہے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں ایک استاد کو وہ مقام قطعا حاصل نہیں ہے جو ہمارے پُرکھوں کی میراث رہی ،جہاں بادشاہِ وقت کے شہزادگان بھی اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے یا پھر یورپ کے معاشرے میں جہاں استاد اگر ملزم کی حیثیت میں بھی پیش ہو تو عدالت کا منصف اس کی تعظیم میں کھڑا ہو جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں تو شاذ و نادر ہی کوئی بچہ بڑے ہو کر استاد بننے کی آرزو رکھتا ہے۔

ماضی میں ایک استاد کو معاشرے میں جو قدر ومنزلت حاصل تھی، کچھ حکومتی اقدامات بھی اس کی تنزلی کا باعث بنے جن کے بالواسطہ اثرات نے استاد کے ذہنی انتشار میں اضافہ کیا۔ مزید بر آں حکام کی جانب سے فرائضِ منصبی کے علاوہ اساتذہ کو گھر گھر جا کر نئےداخلوں کے ٹارگٹ پورے کرنا، مردم شماری اور الیکشن کے دوران ڈیوٹیوں جیسے غیر پیشہ ورانہ عوامل پر بھی مامور کیا جاتا ہے اور اس پر استہزاد یہ کہ محدود وسائل کے ساتھ بورڈ میں اعلیٰ تعلیمی نتائج کی بےجا فرمائش کی جاتی ہے اور ناقص نتا ئج پر محکمانہ تادیبی کاروائیوں جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا کرنے والا یہ استاد مسلسل ذہنی تناؤاورڈیپریشن کا شکار رہتا ہے ۔

APP10-150123
HYDERABAD: January 15 – A woman casts her vote at polling station during Local Government Elections. APP/AKS/TZD
Source: https://www.app.com.pk/

ایک اور وجہ ہمارے ملک کا سیاسی عدم استحکام بھی ہے جس کے باعث جہاں ملک کے دیگر شعبوں میں پالیسیوں کا عدم تسلسل پایا جاتا ہے وہاں تعلیم کے شعبے میں بھی طرح طرح کے تجربات بشمول امتحانی طریقہ کاراور نصاب کی بار بار تبدیلی طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لئے بھی ذہنی کوفت کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح اگر نجی شعبے کی بات کریں تو پرائیویٹ ادارے عمومی طور پر غیر موزوں عمارتوں میں قائم غیر صحت مندانہ ماحول میں کم اجرت پر زیادہ کام لے کر ان اساتذہ کا ذہنی استحصال کرتے ہیں اور یوں تعلیم کا مقدس شعبہ غیر پیشہ ورانہ مالکان کے ہاتھوں کمرشلائز ہوکر رہ گیا ہے جب کہ جاب سیکورٹی کی تلوار بھی ہمہ وقت سر پر لٹک رہی ہوتی ہے۔ اور پھر رہی سہی کسر تو سمارٹ فونز نے پوری کردی ہےجہاں آج کا طالب علم اپنا بیشتر وقت سوشل میڈیا کی فضولیات پر ضائع کر کے حصولِ تعلیم کے مقصد سے بہت دور ہوتا جارہا ہے۔ جس کا لا محالہ اثر استاد کی ذہنی بے بسی پر منتج ہوتا ہے۔جب کہ دوسری طرف ان تمام عوامل کے باوجود حکام اور والدین بھی یکطرفہ طور پراساتذہ سے ہی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ نمبروں کی لوٹ سیل اور رٹے کے مروجہ نظام میں بچوں کے اعلیٰ نتائج اور ان کے من پسند کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلے کو یقینی بنائیں۔

ان تمام جزیات کو بیان کرنے کا مقصد عصرِ حاضر کے استاد کو در پیش کثیرالجہتی مسائل اور ان کے منفی اثرات کےنتیجے میں اساتذہ میں تیزی سے بڑ ھتے ہوئے ذہنی انتشار اور اعصابی دباؤ کی کما حقہُ نشاندہی کرنا ہے جن کا اگر بر وقت تدارک نہ کیا جائے تو بظاہر یہ معمولی ذہنی امراض نہ صرف دیگر پیچیدہ ذہنی امر اض میں تبدیل ہو سکتے ہیں بلکہ بعد ازاں مستقل جسمانی عوارض کا باعث بنتے ہیں۔

ذہنی دباؤ کے مراحل میں سب سے اہم بات ،مسئلے کی تشخیص ہےجس کے لیے اس کی علامات کا علم ہونا ازحد ضروری ہے؛ ۔فزیکل علامات میں بھوک کی کمی و زیادتی جس کی وجہ سے وزن کا گھٹنا یا بڑھنا، بےخوابی یا نیند کا زیادہ آنا، ہر وقت تھکن کا احساس اور معدے کی خرابی شامل ہیں جب کہ نفسیاتی علامات میں معمولی باتوں پر غصہ آنا ، نا امید ہونا، تنہائی پسندی، خود کشی کے خیالات آنا، اورکسی بھی کام میں دل نہ لگنا وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ایسی علامات ظاہر ہونے پر ماہرِ نفسیات سے فوری رجوع اور بروقت تشخیص مریض کو chronic illness سے بچا سکتی ہے جس میں بذاتِ خود مریض اور اس کے بعد دوستوں، فیملی اور ڈاکٹرکا کردار سب سے واضح ہے۔ مستند سائیکالوجسٹ کونسلنگ کےذریعے mild depression کے مریض کو نارمل زندگی کی طرف لا سکتا ہے۔ اور اس کی گا ئیڈ لائن کے تحت رویوں میں بہتری لا کر ،مایوس اورمنفی سوچ کے حامل لوگوں کی صحبت سے دور ی، جسمانی ورزشیں، مختلف ریلکیسنگ تھیرپیز ، متوازن غذا اور بھرپور نیند جیسے فطری عوامل مریض کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جبکہ سائیکاٹرسٹ ادویات کےذریعے کیمیکل مادوں کے عدم توازن کو نارمل کر کے مریض کو نارمل زندگی میں واپس لے آتا ہے۔

بلا شبہ استاد قوم کا محسن اور اس کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہوتا ہے لیکن معاشی زبوں حالی کے ساتھ فکری اعتبار سے بھی ہمارا معاشرہ رو بہ زوال ہے، حا لانکہ یہ قوم غزالی ، سرسید اور اقبال جیسے اساطیر کی وارث ہے، واصف علی واصف، اشفاق احمد اور ان جیسے کئی دانشوراوں کی امین ہے؛ لیکن اس محسنِ انسانیت کی ذہنی صحت اور ذہنی یکسوئی کے لئے ضروری ہے کہ وہ مذکورہ بالا چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے مضبوط قوتِ ارادی کا حامل ہو ۔ ایک اور بدقسمتی ہمارے ہاں یہ رہی ہے کہ نفسیاتی الجھنوں اور ذہنی امراض کو طبی حوالے سے نہیں دیکھا جاتا ، حالانکہ ایک تجربہ کار ، مستند اور کوالیفایئڈ ماہرِ نفسیات ان الجھنوں کے پیچھے چھپے ماخذتک پہنچ کر ان سے نجات دلانے میں حقیقی مد د فراہم کرتا ہے۔

وطنِ عزیز میں بہت کم ادارے ذہنی صحت کے حوالے سے عوامی شعور کی بیداری میں عملی طور پربر سرِ پیکار ہیں،جن میں ‘صحتیاب‘ کا نا م سب سے نمایاں ہے۔اگرمذکورہ بالا علامات اور کیفییات آپ کی روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہوں تو آپ “SehatYab” کے ماہرینِ نفسیات سے آن لائن رابطہ کریں اور ایک بھر پورسماجی زندگی سے لطف اندوز ہوں۔