انسان کا ذہنی و نفسیاتی طور پر صحت مند ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ جسمانی طور پر صحت مند ہونا ۔ لیکن اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص ذہنی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں 36 فیصد لوگ ڈپریشن اور انگزایئٹی کا شکار ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ذہنی صحت کے شعبہ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ جسکا انداذہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اوسطا ایک لاکھ افراد کے لیے صرف ایک سائیکاٹرسٹ (ماہر نفسی طب)موجود ہے۔ دیہی علاقوں کے حوالے سے یہ اعداد وشمار اور بھی مایوس کن ہیں۔ یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ ذہنی و نفسیاتی صحت در حقیقت ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، جذبات،احساسات اور رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے.
نفسیاتی طور پر صحت مند فرد جہاں روزمرہ زندگی کی سرگرمیوں کو بہتر طور پر سر انجام دے سکتا ہے وہیں وہ سٹریس کو بھی بہتراور مثبت انداز میں ڈیل کر سکتا ہے۔ ہم اپنی ذات، ماحول اور دوسروں سے متعلق کس انداز میں سوچتے ہیں اور ہمارارویہ یہ سب ہماری مثبت، کمزور یا بیمار ذہنی صحت کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی گزرے/گزرتے دور میں خواہ وہ بچپن ہو یا جوانی یا پھر حالات کی جھریوں میں لپٹا بڑھاپا انسان کا ذہنی طور پر صحت مند ہونا بے حد ضروری ہے۔ لیکن ستم ظریفی تو دیکھے کے ہم ذہنی اور جزباتی مسائل کو عام طور پر دبانے یا چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر بچہ کسی ذہنی الجھن یا مسئلہ کا شکار ہے تو ایسی صورت میں یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی جاتی ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے ان کا بچہ پاگل ہے یا نفسیاتی مریض ہے۔ اور ایسے بچہ کو عام طور پر گھنٹوں پر محیط لیکچر دے کر اللہ کی ناراضگی سے ڈرا کر خاموش کر دیا جاتا ہے لیکن مسلہ کہاں حل ہوا ہوتا ہے جو بچہ بہتر ہو جائے۔ سکول میں بہتر پرفارمنس نہ ملی تو والدین وجہ کو سمجھنے اور اس کا بہتر حل نکالنے کی بجائے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ دینی تعلیم کو ہلکا لیا جا رہا ہوتا ہے کہ بچے کو درویش سمجھ کر بس مدرسہ بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بچہ میں کیا بہتری آتی ہے اس پر بات چلیں پھر کبھی سہی۔ اس طرح کے کیسز میں اگر والدین ماہر نفسیات سے رجوع کر کے بچے کی ذہنی استعداد کار، رجحان اور صلاحیتوں سے متعلق مشورہ کر لیں تو اسکے بہترین نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ بلکل اسی طرح اگر کوئی نوجوان نفسیاتی مسئلے کا شکار ہو جائے تو اسے بری صحبت کا نتیجہ سمجھ کر ہدایت کی راہ پرآنے کے لئیے گھنٹوں سمجھایا جاتا ہے تو ایسے میں اگر وہ شخص اپنی بے چینی یا چڑچڑے پن کی وجہ سے ہدایت بھرا لیکچر نہ سن پاۓ تو اسے نافرمان قرار دے کر کسی مولانا صاحب کے بیان سننے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی رویہ میں افاقہ محسوس نہ ہو تو ذہنی الجھن کو جادو،جنات کا اثر سمجھ کر پیر صاحب کے آستانے کا رخ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات وقتی آرام کی صورت میں نذارنہ عقیدت کے طور پر پیر صاحب کی جیب بھی گرم کی جاتی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ وہ وقتی آرام پیر صاحب کے دم کا اثر نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی مریض کی توجہ اس کے نفسیاتی مسلئہ سے منتشر ہوتی ہے تو اس کی بےچینی اور ذہنی دباو میں وقتی کمی آتی ہے۔ ایسے میں اگر مریض کا سامنا کسی ذمےداری یا کسی ایسی صورت حال سے ہوتا ہے جس میں اسے پریشر کا سامنا کرنا پڑے تو وہی علامات دوبار ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ تو جناب پھر کیا ایک کے بعد ایک پیر صاحب بدلے جاتے ہیں لیکن بہتری پھر بھی نہیں آتی۔ بعض کیسز میں ایک کے بعد ایک کارڈیالوجسٹ (دل کا ماہر ڈاکٹر) بدلا جاتا ہے ہر قیمت پر دل کا مرض ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ماہر نفسیات سے رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا ظاہر ہے کہ لوگ کیا کہیں گے. اس سوچ کی سب سے بڑی وجہ ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ یہاں میرا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں مگر یقین جانیے اگر عاملین کے علاج سے ذہنی و نفسیاتی امراض کا علاج ممکن ہوتا تو یقینا اب تک سرکاری سطح پر سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ کی تعلیم میں کم از کم ایک سال کا آستنہ شریف کا تجربہ بھی ضرور شامل کر لیا گیاہوتا۔
نفسیاتی اور جذباتی صحت کے حوالے سے ایک بڑی غلط فہمی یہ بھی عام طور پر دیکھنے میں آتی ہے کہ ذہنی الجھن میں مبتلا فردکے حوالے سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ سست، لاپرواہ یا نافرمان ہے اور اپنی ذمےدارویوں سے جی چرانے کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے۔ یہ تمام منفی لیبل آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی مسائل سے جڑے ہیں۔ ذہنی و نفسیاتی صحت کے حوالے سے آگاہی ہی نفسیاتی مسائل اور امراض میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔ چند سادہ اور آسان طریقوں پر عمل کر کے ذہنی طور پر صحت مند اور خوشگوار زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
1۔ مثبت سرگرمیاں اپنائیں۔ 2۔ اپنی زندگی میں ترتیب پیدا کریں۔ ترتیب زندگی میں خوبصورتی لاتی ہے۔ 3۔ اپنی ذات اور شخصیت میں نفاست پیدا کریں (حضرت علی کا قول ہے کہ جو اپنے باطن کا خیال رکھتا ہے اللہ اس کا ظاہر درست فرما دیتے ہیں)۔ 4۔ منافقانہ سوچ اور رویوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔ 5۔ چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کا انداز بھی ہمارے مزاج پر اثر انداز ہوتا ہے سو اس میں بھی توازن اور اعتدال پیدا کریں۔ 6۔ باقاعدگی سے چہل قدمی کریں۔ 7۔ ٹالنے کی عادت سے دور رہیں
1۔ مثبت سرگرمیاں اپنائیں۔ 2۔ اپنی زندگی میں ترتیب پیدا کریں۔ ترتیب زندگی میں خوبصورتی لاتی ہے۔ 3۔ اپنی ذات اور شخصیت میں نفاست پیدا کریں (حضرت علی کا قول ہے کہ جو اپنے باطن کا خیال رکھتا ہے اللہ اس کا ظاہر درست فرما دیتے ہیں)۔ 4۔ منافقانہ سوچ اور رویوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔ 5۔ چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کا انداز بھی ہمارے مزاج پر اثر انداز ہوتا ہے سو اس میں بھی توازن اور اعتدال پیدا کریں۔ 6۔ باقاعدگی سے چہل قدمی کریں۔ 7۔ ٹالنے کی عادت سے دور رہیں
- ذہنی صحت کی اہمیت - April 15, 2024