بھلے وقتوں میں سادہ طرزِ زندگی کی وجہ سے انسان کی مادی ضروریات بھی انتہائی مختصر ہوتی تھیں۔ گھر کا ایک فرد کماتا تھا اور پورا کنبہ پرورش پاتا۔ لیکن اب قدریں خاصی بدل چکی ہیں۔ میاں بیوی جہاں سماجی زندگی میں دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں وہاں معاشی استحکام کے لئے بھی اب ان دونوں کا ہم قدم ہونا ایک امرِ مجبوری ہے۔ تاہم معاشی خوشحالی کے حصول میں دونوں کی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث ان کی گھر یلو زندگی کوکئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
دراصل parenting ایک skill کا نام ہے جس کو آپ کے گھر کا ملازم ، سکول ٹیچر یا ہوم ٹیوٹر نہیں کر سکتا یہ parents کی ہی ذمہ داری ہےاورورکنگ پیرینٹس کیلیے تو اس کی اہمیت دو چند ہے ۔ یورپ کے کئی معاشروں میں بچوں کی ابتدائی عمر تک میاں بیوی اپنی جاب کو اس طرح سےmanage کرتے ہیں کہ باری باری جاب سے بریک لیتے ہیں اور جب بچے شعوری پختگی کی عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر دونوں بیک وقت اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ سارامعاملہ آپ کی ترجیحات کا ہے۔اگر آپ کی ترجیحات میں اولاد کی اعلیٰ پرورش سرِ فہرست ہے تو پھر ایسےاقداما ت ناگزیر ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج work life کے ساتھ home balancing کا ہے۔ جاب پر آتے ہوئے گھر اور بچوں کے مسائل گھر پر ہی چھوڑ کر آنا اور کام سے آتے ہی گھر یلو mode میں پوری انرجی اور motivation کے ساتھ switch over ہونا خاصہ چیلنجنگ ہے لیکن ایسی situation میں دونوں roles کو درست انداز میں ادا کر نا ہی اصل کامیابی ہے۔
آج کے دور میں سب سے بیش قیمت چیز’وقت’ ہے۔ ایک انسان کا اپنی ذات ، بچوں ، عزیز و اقربا اور روزمرہ امور کی انجام دہی میں توازن رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے کیونکہ بقول شخصے؛ ‘ سوچ رہا ہوں خود کو کتنے حصوں میں تقسیم کروں’ ۔ بہرحال، باقی امورپرتو سمجھوتہ ممکن ہے لیکن بچوں کے معاملے میں کوتاہی کی قطعاً گنجائش نہیں۔ ماہرین کے مطابق بچے کی سات سال تک کی عمر اس کے شعور کے بنیادی خدوخال طے کرتی ہے۔ اس دوران والدین کی بھرپور توجہ ہی اسکی شخصیت سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ عمر کےاس حصے میں بچے کا شعورایک ریکارڈنگ مشین کی مانندہوتا ہےجس میں بنیادی رویوں بشمول محبت، نفرت ، غصہ، حسداور خیرو شر جیسے بنیادی جذبوں کے جو pattern ریکارڈ ہورہے ہوتے ہیں اورآگے چل کر بعینہ اس کی فطرت میں reflect ہوتے ہیں۔ مولانا عبدالستار ایدھی کی ماں بچپن میں ان کو دو آنے دیتی تھیں، ایک آنہ اپنےخرچ کے لئے اور دوسرا آنہ کسی کی مدد کے لئے۔ بظاہر ماں کے اس معمولی عمل سے مستقبل میں دنیا کوسماج کی خدمت کا ایک ایسادرخشاں ستارہ عطا ہوا جس کی روشنی ہمیشہ کے لئے امر ہو گئی۔ الغرض اوائل عمر میں انسانی شعور ایک بیج کی مانند ہوتا ہے اور ظاہر ہے جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔
ہر بچہ اپنے اندر ایک نیچرل ٹیلنٹ رکھتا ہے جس کی جانچ پرکھ تب ہی ممکن ہے کہ آپ اس کے ساتھ بھر پور وقت گزاریں اور اس کی فطری صلاحیتوں کو encourage کریں۔ اس کے اندر ethicsاورvalues راسخ کریں ۔ آپ کے بچے social genius ہوں ، ان میں social norms ہوں۔ ان کو mannersکی تربیت ہو ۔وہexpress کریں ، shareکریں اور بتدریج ٌautonomousہو جائیں لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے کہ جب آپ ان کو کوالٹی ٹائم اور trust creditدیں گے۔بصورت دیگر وہ اپنے مسائل کسی اور سے شیئر کرنا شروع کر دیں گے۔خاص کر بلوغت کی ابتدائی عمر کے دوران بچے جنس مخالف سے attractہو کر ان میں پناہ ڈھونڈتے ہیں جس سے کئی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
چند ہی گھرانے ایسے ہیں جواس ساری صورتحال کو بہت عمدہ انتظامی صلاحیت سے manageکرپاتے ہیں یا پھر مشترکہ خاندانی نظام میں جہاں بچوں کے دادا ،دادی اور نانا، نانی وغیرہ والدین کی عدم موجودگی میں کسی حد تک اس کمی کی تلافی کرتے ہیں۔ لیکن عمومی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ نتیجتا ً ہر دوسرا گھراضطراب، ڈیپریشن، پینک ڈس آرڈرزاور دیگر فوبیاز جیسےذہنی امراض کا شکار ہے۔ خاص کر شروع کی بے توجہی کے باعث جب بچے بگڑ جاتے ہیں تو والدین پر اس کے شدید ذہنی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اتنی مشقت کے بعداگر لاحاصل رہیں توپھر یہ تو سراسر زیاں کا سودا ہے۔
ورکنگ پیرنٹس اچھی ٹائم مینیجمنٹ سے ہی ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ لہٰذا انہیں غیر ضروری معمولات کو چھوڑنا پڑتاہے ۔اپنا سکرین ٹائم صرف انفارمیشن اور communicationتک محدود رکھنے اور دیگر غیر ضروری مصروفیات کو ختم کرنا پڑتاہے۔ اسی طرح ماں باپ کی آپس کی اچھی communication، اور ان دونوں کی فرداً فرداً بچوں سے کمیونیکیشن کی تکون اگر مثبت ہے تو اولاد کی تربیت میں آسانی رہتی ہے۔ کیونکہ میاں بیوی مکمل ذہنی ہم آہنگی اور یکسوئی کے ساتھ بچوں کی پرورش ، تعلیم و تربیت کے goalsمتعین کرتے ہیں۔ایسے بندوبست کے ساتھ پروان چڑھنے والے بچوں میںself esteem اور self confidence یعنی اس کی نظروں میں اپنے لیےقدر اور ذات پر اعتماد ہوتا ہے۔
اس کے برعکس اگر دلوں میں ایک دوسرے کے لئے احساس، زندگی کی ترجیحات اوروقت کے حساب سے کام کی تقسیم عمدہ نہیں ہےتو آپس کی بک بک جھک جھک اور چڑچڑے پن کے اثرات فوری طور بچوں پر پڑیں گے ، جبکہ والدین کی اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی بھی غیر تسلی بخش ہو گی، توجہ کے ارتکاز میں کمی، ذہنی اور اعصابی دباومیں اضافے اور روابط اور بات چیت کم ہونے سے نفرت اور تلخیاں بڑھ جائیں گی۔
ورکنگ پیرنٹس کے لئےمندرجہ بالا رہنما اصول بچوں کی پرورش اورجملہ امور میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں تاہم اگر آپ کو پھر بھی ان چیلینجز سے عہدہ برآ ہونے میں مشکلات کاسامنا ہے تو کسی ماہرِ نفسیات سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ کاؤنسلنگ اور parenting workshops کے ذریعے اپنی skills کو بہتربنایا جاسکتا ہے۔ اس امر میں Sehatyab online clinic اپنی مستند سائیکالوجسٹ ٹیم کے ساتھ آپ کی معاونت کے زریعے آپ کی زندگیوںمیں آسا نیاں لاسکتا ہے ۔لہٰذا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے،آج ہی اپنے مسائل کے حل کی جانب بھر پورعملی قدم اٹھائیں ۔