بریکنگ نیوز۔۔ ڈالر تین سو سے تجاوز کر گیا ۔۔ سٹاک ایکسچینج کریش کر گئی۔۔ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر ۔۔مقبول لیڈر گرفتار ۔۔ دہشت گردوں نے بھرے بازار میں خودکش دھماکہ کر دیا۔۔ انسانی اعضا بکھر گئے۔۔، گلیشیئرز ۔۔، گلوبل وارمنگ۔۔، زلزلزلوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں۔۔۔پرانی دشمنی کا شاخسانہ،۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہماری زندگی میں صبح وشام،مہ و سال سے چلنے والی خوف، مایوسی اور سنسنی سے بھر پوریہ خبریں ہماری ذہنی صحت کو کس طرح سے برباد کر رہی ہیں، جبکہ میڈیا مالکان چاہے ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرانک میڈیا سے،ہمہ وقت ایسی منفی خبروں کی طاق میں رہتے ہیں۔کیونکہ عام انفارمیشن کو بھی Thrilling News بنا کر پیش کرنا اب خوب بِکتا ہے۔ اور 7/24نیوز الرٹس کی وجہ سےچیننلز کو ریٹنگ بھی خوب ملتی ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی جہاں جینڈر ،کلچر، سیاست، معاشرت اور مذہب جیسے حساس مو ضوعات پر بھی ہر شخص عقلِ کُل بنا بیٹھا ہے۔عام اورچھوٹے چھوٹےواقعات کی ویڈیو ز بھی وائرل اور ٹرینڈ کر رہی ہوتی ہیں جو بارہا صارفین کی نظر سے گزرتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ ملکی اوربین الاقوامی حالات و واقعات سے باخبر رہنا ضروری ہے اور میڈیا پر تجزیے کی بدولت ہم well informed رہتے ہیں مگر ہیڈلائنز اور بریکنگ نیوزکی اس دوڑ میں انسان کو لگتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ مس کر دے گا جس کی بنا پر وہ مسلسل نیوز کو کو فالو کرتا رہتا ہے۔ ہاں، اگر بات فالو کرنے اور وقت کے بے جا زیاں تک رہتی تو اتنامضائقہ نہ تھا لیکن حال ہی میں ماہرین نے مختلف Survey Reports کی روشنی میں بہت سے موجودہ ذہنی امراض کی وجہ منفی خبروں کو قرار دیا ہےکیونکہ لا شعوری طور پریہ activity ہمیں addiction کی طرف لے جاتی ہے۔جیسے اگر کوئی شخص یہ خبر پڑھتا ہے کہ اس برس بارشیں کم ہونے سے ملک میں پانی کی کمی رہے گی تو بظاہر یہ خبر سننے کے بعد اس کا دھیان کسی اور paradormirmejor.org طرف بٹ جائے گا لیکن کہیں نہ کہیں وہ اداس ہوچکا ہو گا جس سے وہ موڈ ڈس آرڈر کا شکار ہو گا۔
اگرچہ ہمارے اردگرد آئے روز کے جلسے جلوس، احتجاج، ہڑتالیں، ڈکیتیاں اور سماجی ناانصافیاں ہمارے ہی معاشرے کی عکاس ہیں ۔مگر ان کے زیادہ exposure سےمایوسی اور نا امیدی جنم لیتی ہے جس سے انسان اپنے سماج سے متنفر ہو کر آگے بڑھنے کی امنگ اورجینے کی آرزو کھو بیٹھتا ہے جو کہ زندگی میں مشکلات سے مقابلہ کرنے کی ڈرائیونگ فورس ہے ۔ انسان اپنے آپ کو نا اہل اور بے دقعت سمجھتا ہے۔ اور یوں اجتماعی طور پر پورا معاشرہ فکری انتشار اورمایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔منفی عوامل سے سٹریس ہارمونز کارٹیسول اور ایڈرولین کا اخراج ہوتا ہےاور متاثرہ فردبتدریج کئی ذہنی امراض جن میں ذہنی اضطراب، سٹریس اور ڈیپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق اب منفی خبروں کے مضر اثرات کے حوالے سے نئی اصطلاحات وضع کی جارہی ہیں جیسے کہ doomsocrolling اور ہیڈلائن اینگزائیٹی وغیرہ۔ ان سب میں منفی خبروں اور واقعات کے بہت زیادہ exposure کو ذہنی دباؤاور اضطراب سے ہی منسلک کیا گیا ہے۔
انسان کی بنیادی فطرت اچھی باتوں کو قبول کرنے کی ہے۔ ہماراbelief system ہماری observationکی وجہ سے ، اور دوسروں کی کہی ہوئی بات سننےاور پڑھنے کی وجہ سے بنتا ہے۔جب بھی ہم کوئی نئی بات سنتے یا دیکھتے ہیں تو یہ belief system ایک طرح سے اس انفارمیشن کو اپڈیٹ کرتے ہوئے اس بات / چیز سے متعلق ایک نظریہ یا biasقائم کر دیتا ہے ۔ قدرتی طور پر ہمارے دماغ کا Inferior Frontal Gyrus (IFG) اسupdateکو مانیٹر کرتے ہوئے منفی خبریں فلٹر کر دیتا ہے۔جس کی وجہ سے 80 سے 90 فیصد لوگ اپنے اور اردگرد کے بارے میں optimistic biasرکھتے ہیں ۔ جیسے کوئی بھی اپنے آپ کو کینسر اور ایکسیڈینٹ کا شکار ہوتا ہوا نہیں سوچتا۔لیکن حد سے زیادہ منفی باتیں سننے سے ہمارے اندر خوف پیدا ہوتا ہے اور یہ خوف IFGکے حصہ کو متاثر کر سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ انسان بات کو صرف منفی روپ میں دیکھنے لگ جائے۔
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم زندگی میں اتنا کچھ مثبت ہونے کے باوجود بھی حالات و واقعات کے صرف منفی زاویوں کو کیوں دیکھتے ہیں، جن کی لت سے دماغی صحت پر براہِ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں اور متاثرہ فرد کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ دنیا ایک خوفناک جگہ ہے جہاں مسائل کاانبار ہے، یوں منفی ابلاغ کے اثرات بےچینی، تشویش، مایوسی، ناامیدی، ذہنی تنا و، اداسی ، اضطراب،نااہلی اور بے خوابی پر منتج ہوتے ہیں۔
اگر آپ میں منفی سوچ پیدا ہوگئی ہے تو اس کو یقیناً بدلا بھی جا سکتا ہے۔ان مسائل سے نجات کے لئے مضبوط قوتِ ارادی کے ساتھ عملی قدم اٹھانا نا گزیر ہے۔ ہر addictionکو بدلنے میں ٹائم لگتا ہے۔ doom scrolling یا بہت زیادہ منفی خبروں کی عادت ختم کرنے کے لیے سکرین ٹائم کم کرنا پڑے گا۔ – خبروں کا exposure بتدریج محدود کر دیں۔ کسی متوازن چینل یا نیوز ویب سائٹ کا استعمال کریں۔ ذہنی معالج سے مشاورت کریں۔ واک ، ہلکی پھلکی ورزش اور سیل فری ٹائم متعین کریں۔ مطالئہ کتب ،مراقبے، تخلیقی اور فلاحی کاموں میں مگن ہو جائیں، جگہ جگہ سیاست، ملکی حالات، اور معیشت وغیرہ پر بات کرنے کی بجائے کسی مفید موضوع پر گفتگو کی عادت اپنائیں۔
مزکورہ ذہنی امراض قطعاً قابلِ علاج ہیں بشرطیکہ بروقت مستند ذہنی صحت کے ماہرین سے رابطہ کر کے ان کےحل کی جانب فوری عملی قدم اٹھا یا جائے بصورتِ دیگر یہ مزید پیچیدہ ذہنی امراض کی شکل اختیار کر سکتے ہیں اور آپ کی زندگی کے معمولات پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ‘صحت یاب‘ مینٹل ہیلتھ کا ادارہ اپنے مستند ماہرِینِ نفسیات کے ساتھ ذہنی صحت کے حوالے سے سماجی شعور کی آگاہی میں تندہی سے سر گرمِ عمل ہے۔ صحتیاب کے آن لائن فورم کی سہولت سے مذکورہ بالا مسائل سے نجات کے لئے کسی بھی وقت رابطہ کیا جا سکتاہے۔