نیندایک عظیم عطیہ خداوندی ہے۔ دن بھر کی ذہنی اور جسمانی مشقت کے بعد انسان کے اعصاب مضمحل اور تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نیند فطری طور پر اس ذہنی اوراعصابی تھکن کی تلافی کرتی ہے۔ رات بھر کی پر سکون نیند کے بعد انسان تازہ دم ہو کر نئی صبح اور نئے معمولات کاآغاز ایک نئی توانائی کے ساتھ کرتا ہے۔ نیند ایسا ایندھن ہے جس سے انسانی زندگی کی گاڑی بطریقِ احسن چلتی ہے اور اوسطاً سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند سے انسانی جسم اور زہن کی اوور ہالنگ ہو جاتی ہے۔
عصرِحاضر میں مادیت پرستی نے جہاں کئی دیگر عوامل کو متاثر کیا ہے وہاں بیشتر لوگ نیند جیسی نعمتِ خداوندی سے یکسر محروم ہیں۔ بے خوابی کے شکار انسان کا مدافعتی نظام (ایمیون سسٹم) کمزور پڑجاتا ہے۔ سٹریس ہارمونز کے افعال بگڑ جاتے ہیں اور اعصابی نظام میں مسائل سے انسان کے عضلات شدید متاثر ہوتے ہیں۔ ان خرابیوں کے نتیجے میں انسان کی بیماریوں کے خلاف لڑنے کی طاقت کم ہو جاتی ہے اور ان کا اگر بروقت تدراک نہ کیا جائے تو یہ بتدریج مالیخولیا، جنون، ڈیپریشن، بلند فشارِ خون، فالج اور امراضِ قلب جیسے عارضوں کی طرف لے جاتی ہیں۔
بے خوابی بذاتِ خودکوئی عارضہ نہیں بلکہ دیگر متفرق وجوہات کی بنا پر لاحق ہونے وال ایسا مرض ہے جو مزیدکئی امراض کا باعث بن سکتا ہے۔
بے خوابی کی چیدہ چیدہ وجوہات اور ان کا ممکنہ علاج درج ذیل ہے:
ذہنی تفکرات کے نیند پر مہلک اثرات:
دورِحاضر کے انسان کو کئی قسم کے چیلجز کا سامنا ہے۔کم وقت میں بہت کچھ حاصل کرنے کی دوڑ میں قدم قدم پر مسابقتی اور معاندانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے ناگزیر اثرات انسانی صحت پر بالعموم اور نیند پر بالخصوص پڑتے ہیں۔ سماجی، معاشرتی اور معاشی تفکرات کا شکار آج کا انسان پر سکون نیند کی تمنا لئے ساری رات بستر پر کروٹیں بدل بدل کرگزار دیتا ہے لیکن نیند کی مہربان دیوی اس سے کوسوں دور رہتی ہے کیونکہ بستر پر لیٹتے ہی اسے ماضی کے تفکرات اور مستقبل کے خدشات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ طالب علموں کو امتحان میں ناکامی کے خوف، نوجوانوں کو مناسب روزگار نہ ملنے کی پریشانیاں، والدین کو اولاد کی تربیت کے مسا ئل،مناسب رشتے نہ ملنے کی فکریں اور قدم قدم پر حاسدین کا سامنا الغرض اس دور پرآشوب میں ہر انسان نفسانفسی اور ذہنی انتشار کا شکار ہے جس کے لامحالہ اثرات انسان کی نیند پر پڑتے ہیں۔
دنیا میں ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے۔ انسان اگر رونے دھونے اور شکووں کی بجائے اس کے حل کی طرف توجہ کرے تو بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔ ضرورت صرف سوچ کے زاویے کو بدلنے کی ہے۔ کسی بھی معاملے میں حد سے زیادہ ٹینشن کئی پیجیدگیوں کو جنم دیتی ہے۔جن میں بے خوابی سرفہرست ہے۔
بدقستی سے آج کا انسان توکل کی دولت سے یکسر محروم ہے۔سماجی زندگی کے درج بالامسائل کو دین کے زریں اصولوں کی روشنی میں صبر و تحمل اور بردباری سے حل کرنا چاہیے۔ اگرچہ توکل،استغنا اور قناعت جیسی دولت کو زندگی کا شعار بنانے سے جملہ مسائل کافی حد تک حل ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اگر معاملے کی سنگینی حد سے بڑھ جائے تو لازمی طور پر مستند سائیکا لوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے۔
صحت مندانہ جسمانی سرگرمیوں میں کمی کے نیند پر اثرات:
جیسے جیسے ہم جدید ٹیکنالوجی کی سمت میں گامزن ہیں، انسان کی مصروفیات اور ترجیحات میں یکسر تبدیلی آ رہی ہے۔ دورِ جدید کی کئی ایجادات نے جہاں انسانی زندگیوں میں آسانیاں لائی ہیں وہاں ان کے کثرتِ استعمال نے منفی اثرات بھی مرتب کئے ہیں۔ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فون ہر چھوٹے بڑے کی زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ بے شمار طرح کے انٹر نیٹ پیکجزکی آسان دستیابی کی بدولت ہر کوئی گوگل، یوٹیوب، انسٹا گرام، ٹویٹر اور سیلفی کے سحر میں مبتلا ہے۔ ایک ہی چھت کی نیچے رہنے والے اشخاص سوشل میڈیا کی دنیا میں گم ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی کے تقریباً چونسٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔جن کے دن کا زیادہ تر حصہ موبائل فون اورانٹر نیٹ کی سرگرمیوں پر ضائع ہو جاتا ہے اور نتیجتاً ہماری زندگیوں سے کھیل کود کا عنصر معدوم ہوتا جا رہا ہے اوردر حقیقت مذکورہ بالا مسئلے نے پر سکون نیند کی نعمت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
ہمیں کھیلوں کے میدان آباد کر نے ہوں گے۔ کھیل اور تفریح کو دن کے معمولات میں لازماً جگہ دینی ہو گی۔ مناسب واک اور جاگنگ سے انسان کے ہارمونز کے افعال بہتر ہوتے ہیں اور انسان زہنی اور جسمانی طور پر چا ک و چوبند رہتا ہے اور جسمانی تھکاوٹ کے بعدذہنی الجھنوں سے آزاد ہو کر میٹھی نیند سے محظوظ ہوتا ہے۔
خوراک میں بے اعتدالی کے نیند پر اثرات:
کئی لوگ رات کا کھانا دیر سے کھانے کے عادی ہیں اور اس کے بعد سیدھا بستر کا رخ کرتے ہیں۔ مزید بر آن رات کے کھانے میں نشاستہ دار، مصالحے دار اور چکنائی والی مرغن غزائیں کھانے سے معدے میں بھاری پن محسوس ہو تا ہے جس سے فوری طور پر نیند نہں آتی۔سونے سے قبل نکوٹین، کیفین اور کولڈ ڈرنکس کا استعمال بھی نیند کو دور بھگا دیتا ہے۔
خوراک میں بے اعتدالی کو احتیاطی تدابیر کے ذریعے بآسانی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔کھانا ہمیشہ سونے سے کم از کم دو گھنٹے قبل کھانا چاہیئے۔رات کے کھانے میں مرغن غذاوٗں سے اجتنا ب کر نا چاہیئے۔سونے سے قبل دودھ کا نیم گرم گلاس اعصاب کو تقویت دیتا ہے اور اعصاب کے تناؤکوکم کر کے پر سکون نیند میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔ تمباکو نوشی، چائے، کافی،اور کیمیکل ملے مشروبات سے گریز کرنا چاہیئے۔کیونکہ ان میں شامل کئی اجزاء بالخصوص کیفین وغیرہ جسم کے اعصابی نظام کو الرٹ کر دیتے ہیں جس کے اثرات کئی گھنٹے تک برقرار رہتے ہیں۔خوراک میں پائی جانے والی ان بے اعتدالیوں کو ترک کرنے سے انسان ایک پرسکون نیند سے مستفیض ہو سکتا ہے۔
روزمرہ کے معاملات میں بے اعتدالی کے نیند پر اثرات:
قانونِ فطرت ہے کہ ’دن بنایا کام کرنے کو اور رات بنائی آرام کرنے کو‘۔ سحر خیزی کے عادی لوگ اپنے دن کے معمولات کا آغاز اول اوقات سے کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کے معمولات بروقت تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔وہ رات کو جلدی سونے کے باعث ذ ہنی اور جسمانی طور پرمستعدرہتے ہیں۔ جبکہ اوقات میں بے اعتدالی کے شکار لوگ دن چڑھے اٹھ کر اپنے معمولات شروع کرتے ہیں اور فطرت کے بر خلاف رات گئے تک جاگنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور اس بےاعتدالی کے نتیجے میں مختلف مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
فطرت کے قوانین امر ہوتے ہیں۔سحر خیزی کو اپنا فطرت ثانیہ بنانے سے انسان کے مزاج اور قابلیت میں حیران کن تبدیلی آتی ہے۔جس کے خاطر خواہ اثرات نیند کی بہتری کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
دیگر بیماریوں کی وجہ سے نیند پر اثرات:
کئی دیگر امراض اپنے جملہ اثرات کی وجہ سے نیند کو متاثر کرتے ہیں۔ معدے کے امراض، اینیمیا، بلند فشارِ خون، سر درد، زیا بیطس، بخار، سرطان کی وجہ سے پیش آنے والی تکالیف سے بھی نیند بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ان جملہ امراض کی بر وقت تشخیص اور مناسب علاج سے ان کے نیند پر مڑنے والے اثرات پر فوری طور پر قابو پانا بہت ضروری ہے ورنہ یہ مزید اعصابی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کاباعث بنتی ہیں۔
اچھی اور پر سکون نیند کسی نعمتِ خداوندی سے کم نہیں۔ آج تقریباً ہر پانچواں چھٹا شخص اس عارضے میں مبتلا ہے۔موجودہ صدی کے آغاز سے ہی جدید دور کی ایجادات بالخصوص موبائل اور انٹرنیٹ نے انسانی زندگی کے معمولات کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ گھنٹوں سمارٹ فون کی سکرین پر انگلیاں پھیرتے گزر جاتے ہیں۔جس سے نیند سمیت تمام معمولاتِ زندگی ڈسٹرب ہو چکے ہیں۔ کم نیند کا شکار آج کا انسان اپنے مستقبل کو بدلنے کی توانائی کھو رہا ہے۔یہ کیفیات اسے منشیات اور خواب آور ادویات کی طرف لے جاتی ہیں۔ مجوزہ بالا احتیاطی عوامل کو اختیار کرنے سے اس روز افزوں بڑھتے ہوئے گھمبیر مسئلے پر بخوبی قابو پایا جا سکتا ہے۔