زیادہ سوچتے رہنے کےنقصانات، وجوہات اور علاج

سوچیں انسان کی شخصیت کا عکس ہوتی ہیں۔مثبت خیالات انسان کو بلندی کی معراج پر لے جاتے ہیں۔ جب کہ خیالات کی پستی اس کو عزازیل سے ابلیس بنا کر ذلت کی گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔ ہمہ وقت بےمقصد سوچوں کی دنیا میں غرق انسا ن ذہنی اذیت پسندی کا عادی ہو جاتا ہے جبکہ لمحئہ موجود کو بھر پور انداز میں گزارنے والا انسان پوری تندہی اور ذہنی یکسوئی سے اپنی تمام تر قابلیتوں کو استعمال میں لاتا ہے۔

زیادہ سوچنے والےلوگ دو قسم کے خیالات میں مگن ہوتے ہیں؛ یا تو وہ ماضی کے کسی واقعے کی راکھ کرید رہے ہوتے ہیں یا پھرمستقبل کی ان دیکھی دنیا میں بھٹک رہےہوتےہیں۔ ان کی شخصیت ایک خول میں بند ہوکر رہ جاتی ہے ،موجودہ کام سے ان کی توجہ بٹ جاتی ہے۔اگر کسی نشست میں ہیں تو گفتگو بے ربط ہو جاتی ہے۔ غائب دماغی کی وجہ سے کھل کراپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر سکتے اور ان دیکھے خوفوں میں مبتلا ہو کر بے خوابی، چڑ چڑے پن اور بتدریج دیگرکئی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

وجوہات:
ناکامی کاخوف ـ کسی بات پہ ضرورت سے زیادہ غو رو فکر کرنے کی ایک بڑی وجہ ہمارے اندر کےخوف ہوتے ہیں۔ ماضی کی کسی ناکامی کی وجہ سےدل میں یہ خوف سرایت کر جاتا ہے کہ اس دفعہ بھی یہ کام صحیح نہ کر پائے تو کیا ہو گا۔

کسی صدمےکے زیرِ اثر ہونا: کوئی ناگہانی واقعہ یا صدمہ بھی انسان کو بےمقصد سوچوں کی بھول بھلیوں میں بہت آگے تک لےجاتا ہے۔

منفی جذبات : خیالات کا ما خذ اآپ کے emotions ہوتے ہیں۔ آپ جیسا محسوس کر رہے ہوں گے ویسے ہی خیالات اور پھر واقعات پیش آئیں گے۔مثلاٌ اگر آپ اچھے موڈ میں گھر سے گاڑی یا بائیک پر نکلےہیں اور راستے میں کوئی آپ کو غلط اوورٹیک کرنے کی کوشش بھی کرے تو آپ مسکرا کے اسے آگے جانے دیں گےلیکن اگر آپ کا موڈ خراب ہے تو رد عمل کچھ اور بھی ہو سکتاہے کیوں کہ منفی جذبات منفی سوچوں کو جنم دیتے ہیں۔

منفی صحبت: مایوس اور ناامید لوگوں کی صحبت بھی انسان کو ویسا بنا دیتی ہے۔

خاندانی پسِ منظرکی پسِ منظر کی وجہ سے: انسان کی pathetic thoughts آباواجداد سے نسل در نسل بھی منتقل ہوتی ہیں۔

نقصانات:
جسمانی اثرات :زیادہ سوچنے سے stress ہوتا ہے جس کے باعث cortisol میں کمی آجاتی ہے اور یہ کمی دماغی صلاحیت کوکم کر دیتی ہے،حتٰی کہ یہ دماغ کے سیلزختم کرکے اسے چھوٹا بھی کرسکتا ہے۔

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں: اس کائنات کی سب سے قیمتی چیز وقت ہےجس کا صحیح استعمال انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتاہے۔ ہمہ وقت غیر ضروری سوچوں میں غرق انسان گھنٹوں اس کیفیت میں گزار دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی ذاتی زندگی کے امور بےضابطہ اور بے قاعدہ ہو جاتے ہیں۔

بےخوابی: زیادہ سوچنے والے بالعموم بے خوابی کا اآسان شکار ہوتے ہیں۔ جو کہ بذاتِ خود کئی دیگر نفسیاتی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔

بدمزاجی۔ چڑچڑا پن اور دیگر نفسیاتی امراض: مایوس کن خیالات انسان کو بد مزاج اور چڑچڑ ا بنا دیتی ہے۔ بے مقصد باتوں پہ بے سود تجزیےکرنے سے وہ چڑچڑے پن کے ساتھ سا تھ،حافطے کی کمزوری ، سست روی ، ڈیپریشن bipolar disorder اور schizophreniaجیسے امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر سال آٹھ لاکھ لوگ ڈیپریشن اور اس سے متعلقہ بیماریوں سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

سماجی تنہائی: زیادہ سوچنے والا انسا معاشرے کا ناکارہ پرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ سماجی تنہائی کا شکار ہو کر اپنےسوشل سرکل میں ناپسندیدہ گردانا جاتا ہے۔

پیشہ ورانہ امور میں کوتاہی: پیشہ وارانہ امور میں کارگردگی بری طرح متاثر ہوتی ہےجیسے اگر آپ کسی میکینکل مشین پر کام کر رہے ہیں تو آپ کا ہاتھ اس کے کسی حصے میں آسکتا ہےاور اگر آپ بینک یا مالی امور کا کام کر رہے ہیں تو آپ کی ایک ہندسے کی غلطی سے کروڑوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔

معمولی باتوں پر پریشان ہو جانا: انتہائی چھوٹے چھوٹے معاملات پر بلاوجہ پریشان ہو جاتا ہے،اسے معمولی کام بھی پہاڑ لگنے لگتا ہے

تخلیقی صلاحیتوں کی کمی : اس کے creative skillsبھی کم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

علاج:

دھیان بٹانا: جب بھی غیر ضروری خیالات ستایئں تو اپنی توجہ اور رجحانات کسی مثبت سر گرمی کی طرف مصروف کردیں۔ اس سےذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔

ماحول کی تبدیلی: منفی خیالات کے تسلسل سے نکلنے اور طبیعت خوشگوار کرنے کےلئے اپنے ارد گرد کاما حول تبدیل کر نا از حد ضروری ہے۔فطرت کے مناظر پہ غور کریں۔سبزہ ،آسمان،جھیل ،پہاڑ اور راہ چلتے شرارتیں کرتے بچے آپ کو پریشان کن خیالات سے نکال کر مسکرانے پہ مجبور کر دیں گے۔

مایوسی سےبچیں: مایوسی کفر ہے، اس کو خود سے دور رکھیں ۔اگر ناکام ہوگئے تو کیا ہوا کیونکہ ْ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میںٗ ،زندگی تو چلتی رہتی ہے اور کامیابی ناکامی تو اس زندگی کے رنگ ہیں۔

مذہب کی طرف رجحان : تقریباًدنیا کا ہر انسان مشکل وقت میں مذہب کا رخ کرتا ہے سو روحانیت سے رابطہ اختیار کریں۔ نماز بکھرے خیالات کومرتکز کرنے کی بہترین مشق ہے جو ہم روزانہ دن میں 5 بار کر سکتے ہیں۔اس مشق کو پیمانہ بنا کر باقی معاملات میں بھی یکسوئی لائی جا سکتی ہے۔

مثبت اپروچ اپنائیں: ماضی کے پریشان کن خیالات سے پیچھا چھڑانا نہایت ضروری ہے، اس کے لیے چیزوں کو بڑے فریم میں دیکھیں کہ وہ خاص بات یا واقعہ اب آپ کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتا ہےجس کی سوچ نے آپ کو hang کر رکھا ہے۔

اچھی صحبت اختیار کریں: ایسی صحبت میں بیٹھیں جو یاسیت اور مایوسی کی بجائے امید کی بات کریں ،جوپریشانیوں کو ہلکے پھلکے انداز سے حل کرنے اور کھل کر قہقہے لگانے والے ہوں۔

جذبہ، جنون اور توجہ : روایت مشہور ہے کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا کہ مجنوں لیلٰی کی جستجو میں اس کے آگے سے گزرا ،نمازی طیش کے عالم میں اس سے بولا کہ تمہیں نظر نہیں آتا میں رب کی عبادت میں مصروف ہوں۔مجنوں نے جواب دیا کہ میں جس کی کھوج میں ہوں مجھے اس کے سِوا کسی کا ہوش نہیں۔مگر تمہاری ایسی عبادت کا کیا فائدہ جس میں تمہاری توجہ اپنے رب کی بجائے کسی اور طرف ہے ۔ لہٰذا جو بھی کام آپ کر رہے ہیں اس کو عبادت کا درجہ دیں اور جنون کی حد تک یکسوئی لائیں۔

توکل:ا گر انسان اپنےآپ کو عقلِ کُل سمجھنا شروع کر دے تو ہر ناکامی پر اپنےآپ کو ذمہ دار ٹھہرانے لگتا ہے ۔ اللہ اپنےبندوں کو آزماتاضرور ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ْکیا ہم نے بنایا محض تمہیں کھیلنے کو؟ اور کیا تم آ زمائے نہیں جاوگےٗ؟ -ہاں آزماتا ضرور ہے لیکن اس بات پہ یقین رکھنا چاہیئے کہ ْاللہ کسی بھی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ بھی نہیں ڈالتا۔ٗ

مسائل حل کرنے کی سوچ پیدا کریں: زیادہ سوچوں میں مگن انسان کو اپنی مشکل سب سے بڑی لگتی ہے ، مسئلے کے ممکنہ حل کی بجائے اس مسئلے کو ہی خود پر حاوی کرلیتا ہے۔ مثبت اور تعمیری سوچ سے مسئلوں کو tackle کرنے کی عادت ڈالیں۔

ایک روایت میں مذکور ہے ایک دفعہ اعلان کیا گیا کہ آپ اپنے مسائل اوردکھ فلاں مقام پرکسی اور سے بدل سکتے ہیں۔سب لوگ اپنے اپنے دکھ ایک گٹھڑی میں ڈال کر اپنے کندھوں پر اٹھائے مطلوبہ جگہ جمع ہو گئے تاکہ جب حکم ہوتو اپنے مسائل اوردکھوں کی گٹھڑی کسی اور سے تبدیل کر سکیں ۔ لیکن ایک دوسرے کی زبانی اندازہ ہوا کہ دوسروں کی پریشانیاں، بیماریاں اور غم تو ان سےبھی کئی گنا زیادہ ہیں ، اورایسا نہ ہو کہ ایک مصیبت سے نکل کر کسی دوسرے کی مشکلات کو گلے لگا لیں سو آخر میں سب لوگ اپنی اپنی لائی ہوئی گٹھڑیاں ہی دوبارہ کندھوں پر اٹھائے واپس لے گئے۔ بس فرق اتنا تھا کہ آتے وقت یہی دکھ بھاری لگ رہے تھے جبکہ واپسی پر اب وہی گٹھڑی ہلکی پھلکی لگ رہی تھی-ہمیں چاہیئے کہ بے بنیاد سوچوں میں پڑ کرمشکلات سے گھبرانے کی بجائے مثبت طرزِ زندگی اپنا کر سماج اور معاشرے میں فعال کردار ادا کریں۔

اگر آپ بھی کسی ذہنی و جسمانی مسائل کی وجہ سے زیادہ سوچ میں رہتے ہیں اور یہ آپ کی روز مرہ کی زندگی کو متاثر کر رہا ہے تو صحتیاب سروس کے زریعے ڈاکٹر یا ماہر نفسیات سے آن لائن مشورہ کریں۔
مشورہ کرنے کے لئے صحتیاب کی ویب سائٹ www.SehatYab.com وزٹ کریں یا 03001003171 پر رابطہ کریں۔